ہم ہی تنہا نہ تری چشم کے بیمار ہوئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم ہی تنہا نہ تری چشم کے بیمار ہوئے
by میر محمدی بیدار

ہم ہی تنہا نہ تری چشم کے بیمار ہوئے
اس مرض میں تو کئی ہم سے گرفتار ہوئے

سینۂ خستہ ہمارے سے ہے غربال کو رشک
ناوک غم جگر و دل سے زبس پار ہوئے

بکنے موتی لگے بازار میں کوڑی کوڑی
یاد میں تیری زبس چشم گہر بار ہوئے

روز اول کہ تم آ مصر محبت کے بیچ
یوسف عصر ہوئے رونق بازار ہوئے

نقد جان و دل و دیں دے کے لیا ہم نے تمہیں
سیکڑوں اہل ہوس گرچہ خریدار ہوئے

گھر میں لے آئے تمہیں چاہ سے کرنے شادی
کہ تم اس غم کدہ میں شمع شب تار ہوئے

رخ تاباں سے تمہارے کہ ہے خورشید مثال
در و دیوار سبھی مطلع انوار ہوئے

ڈھونڈھتے تم کو پڑے پھرتے تھے ہم شہر بہ شہر
خوار و رسوائے سر کوچہ و بازار ہوئے

للہ الحمد کہ مدت میں تم اے نور نگاہ
باعث روشنیٔ دیدۂ خوں بار ہوئے

خانۂ چشم میں رکھتے تھے شب و روز کہ تم
قرۃالعین ہوئے راحت دیدار ہوئے

دیکھ کر مہر و وفا و کرم و لطف کو ہم
جانتے یوں تھے کہ تم یار وفادار ہوئے

جس میں تم ہوتے خوشی سو ہی تو ہم کرتے تھے
پر نہیں جانتے کس واسطے بیزار ہوئے

اب ہمیں چھوڑ کے یوں زار و نزار و غمگیں
تم کہیں اور ہی جا یاں سے نمودار ہوئے

یہ تو ہرگز ہی نہ تھی تم سے توقع ہم کو
کہ ستم گار دل آزار جفا کار ہوئے

نہ وہ اخلاص و محبت ہے نہ وہ مہر و وفا
شیوۂ جور و جفا و ستم اظہار ہوئے

یا وہ الطاف و کرم تھا کہ سدا رہتے تھے
اے گل اندام ہمارے گئے کے ہار ہوئے

اس میں حیراں ہیں کہ کیا ایسی ہوئی ہے تقصیر
قتل کرنے کے تئیں پھرتے ہو تیار ہوئے

تیغ خوں ریز بکف خنجر براں بہ میاں
ہر گھڑی سامنے آ جاتے ہو خونخوار ہوئے

پھر تو کیا ہے سنتے ہو اٹھو بسم اللہ
کھینچ کر تیغ کو آؤ جو ستم گار ہوئے

ورنہ دل کھول کے لگ جاؤ گلے سے پیارے
گو کہ ہم قتل ہی کرنے کے سزا وار ہوئے

اتنی ہی بات کے کہنے میں کہ اک بوسہ دو
آہ اے شوخ جو ایسے ہی گناہ گار ہوئے

توبہ کرتے ہیں قسم کھاتے ہیں سنتے ہو تم
پھر نہیں کہنے کے آگے کو خبردار ہوئے

پوچھتا کیا ہے تو بیدارؔ ہمارا احوال
دام خوباں میں پھر اب آئے گرفتار ہوئے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.