ہم ہیں اور شغل عشق بازی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم ہیں اور شغل عشق بازی ہے
by محمد ابراہیم ذوق

ہم ہیں اور شغل عشق بازی ہے
کیا حقیقی ہے کیا مجازی ہے

دختر رز نکل کے مینا سے
کرتی کیا کیا زباں درازی ہے

خط کو کیا دیکھتے ہو آئنے میں
حسن کی یہ ادا طرازی ہے

ہندوئے چشم طاق ابرو میں
کیا بنا آن کر نمازی ہے

نذر دیں نفس کش کو دنیا دار
واہ کیا تیری بے نیازی ہے

بت طناز ہم سے ہو ناساز
کارسازوں کی کارسازی ہے

سچ کہا ہے کسی نے یہ اے ذوقؔ
مال موذی نصیب غازی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse