ہم ڈھونڈتے ہیں باغ میں اس گلعذار کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم ڈھونڈتے ہیں باغ میں اس گلعذار کو
by منشی بہاری لال مشتاق دہلوی

ہم ڈھونڈتے ہیں باغ میں اس گلعذار کو
جلوہ نے جس کے رنگ دیا ہے بہار کو

تم جاتے ہو تو جاؤ خدا کے لئے مگر
لے جاؤ اپنے ساتھ نہ صبر و قرار کو

ہم حسن اعتقاد سے سمجھے چڑھائے پھول
گل کر دیا جو اس نے چراغ مزار کو

دی کس نے اس کو جا کے نوید قدوم یار
ہے ناگوار باغ سے جانا بہار کو

اس بت میں نور قدرت خالق ہے مستتر
پتھر نے کیا چھپایا ہے دل میں شرار کو

مشتاقؔ غم کو پاس نہ آنے دے زینہار
خوش خوش گزار زندگئ مستعار کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse