ہم وہ نالاں ہیں بولی ٹھولی میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم وہ نالاں ہیں بولی ٹھولی میں
by شاد لکھنوی

ہم وہ نالاں ہیں بولی ٹھولی میں
بلبلوں کو جو لیں ٹھٹھولی میں

جامہ زیبوں سے اس کو نسبت کیا
لاکھ ٹکڑے ہیں گل کی چولی میں

رنج غم کھانے کو خدا نے دیا
کیا نہیں مجھ گدا کی جھولی میں

الف لیلیٰ سنے وہ گل تو سنائیں
بلبلیں اک ہزار بولی میں

خون ناحق ہمارا اچھلے گا
رنگ لایا جو شوخ ہولی میں

چشم عبرت سے دیکھ پردہ نشیں
شکل تابوت کی ہے ڈولی میں

سبزۂ خط ہو کیوں نہ جوہر خال
زہر تریاک کی ہے گولی میں

بوسہ اس سرو قد سے ہم آزاد
مانگ لیتے ہیں بولی ٹھولی میں

شادؔ رو رو دیا ہے شبنم نے
جب گلوں نے لیا ٹھٹھولی میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse