ہم نے کس رات نالہ سر نہ کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم نے کس رات نالہ سر نہ کیا
by خواجہ میر درد

ہم نے کس رات نالہ سر نہ کیا
پر اسے آہ کچھ اثر نہ کیا

سب کے ہاں تم ہوئے کرم فرما
اس طرف کو کبھو گزر نہ کیا

کیوں بھویں تانتے ہو بندہ نواز
سینہ کس وقت میں سپر نہ کیا

کتنے بندوں کو جان سے کھویا
کچھ خدا کا بھی تو نے ڈر نہ کیا

دیکھنے کو رہے ترستے ہم
نہ کیا رحم تو نے پر نہ کیا

آپ سے ہم گزر گئے کب کے
کیا ہے ظاہر میں گو سفر نہ کیا

کون سا دل ہے وہ کہ جس میں آہ
خانہ آباد تو نے گھر نہ کیا

تجھ سے ظالم کے سامنے آیا
جان کا میں نے کچھ خطر نہ کیا

سب کے جوہر نظر میں آئے دردؔ
بے ہنر تو نے کچھ ہنر نہ کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse