ہم نے پائی لذت دیدار لیکن دور سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم نے پائی لذت دیدار لیکن دور سے
by مضطر خیرآبادی

ہم نے پائی لذت دیدار لیکن دور سے
ان کی صورت دیکھ لی سو بار لیکن دور سے

وہ دکھاتے ہیں ہمیں رخسار لیکن دور سے
اس کا مطلب ہے کہ کر لو پیار لیکن دور سے

اس نے جانچا میرا درد دل مگر آیا نہ پاس
اس نے دیکھا میرا حال زار لیکن دور سے

روزن دیوار سے حسرت بھری آنکھیں لڑیں
ہو گئیں ان سے نگاہیں چار لیکن دور سے

اس نے آنے کا کیا ہے قول لیکن تا بہ در
اس نے ملنے کا کیا اقرار لیکن دور سے

پاس مضطرؔ کس طرح جاتے ہجوم یاس میں
ہو گیا ان کا ہمیں دیدار لیکن دور سے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse