ہم نے تو خاک بھی دیکھا نہ اثر رونے میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم نے تو خاک بھی دیکھا نہ اثر رونے میں
by عشق عظیم آبادی

ہم نے تو خاک بھی دیکھا نہ اثر رونے میں
عمر کیوں کھوتے ہو اے دیدۂ تر رونے میں

رات کب آئے تم اور کب گئے معلوم نہیں
جان اتنی نہ رہی ہم کو خبر رونے میں

جب تلک اشک تھمیں بیٹھ اگر آیا ہے
تیری صورت نہیں آتی ہے نظر رونے میں

تجھ کو اے دیدۂ تر شغل ہے رونا لیکن
ڈوبا جاتا ہے یہاں دل کا نگر رونے میں

عالم عشق میں مجنوں بھی بڑا گاڑھا تھا
یار مجنوں سے بھی ہم گاڑے ہیں پر رونے میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse