ہم نے تو اجاڑ اور بستی دیکھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم نے تو اجاڑ اور بستی دیکھی
by قاسم علی خان آفریدی

ہم نے تو اجاڑ اور بستی دیکھی
دنیا کی سبھی بلند اور پستی دیکھی

صورت پہ خیال اپنی آیا جس دم
یک لحظہ حباب وار پستی دیکھی

کتنوں کے معاش کی درستی دیکھی
کتنوں کی بہ خانہ فاقہ مستی دیکھی

دنیا ہے بسان قحبہ خوش دل غمگیں
روتی ہے کبھی کبھی تو ہنستی دیکھی

جس دست کی میں دراز دستی دیکھی
اس دست کی آخرش شکستی دیکھی

جس نے بستم کیا مکاں کو تعمیر
دیوار پھر اس مکاں کی کھسکتی دیکھی

با وصف عیاں ہے لیک بعضی خلقت
اس شوخ کی دید کو ترستی دیکھی

یہ طرفہ ہے ماجرا کہ کعبۂ دل میں
آفریدیؔ کی ہم نے بت پرستی دیکھی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse