ہم نیں سجن سنا ہے اس شوخ کے دہاں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم نیں سجن سنا ہے اس شوخ کے دہاں ہے
by شاہ مبارک آبرو

ہم نیں سجن سنا ہے اس شوخ کے دہاں ہے
لیکن کبھو نہ دیکھا کیتا ہے اور کہاں ہے

ڈھونڈا ہزار تو بھی تیرا نشاں نہ پایا
لشکر میں گل رخاں کے تیری مثل کہاں ہے

اب تشنگی کا روزہ شاید کھلے ہمارا
شام و شفق سجن کا مسی و رنگ پاں ہے

دل میں کیا ہے دعوا انکھیاں ہوئی ہیں منکر
تیری کمر کا جھگڑا ان دو کے درمیاں ہے

رہتا ہوں اے پیارے قدموں تلے تمہارے
جس راہ آوتے ہو عاجز کا وہیں مکاں ہے

تجھ خط پشت لب میں تس کا سخن ہوا سبز
اس کی زباں دہن میں مانند برگ پاں ہے

پیری سیں قد کماں ہے ہر چند آبروؔ کا
اس نوجواں کی خاطر دل اب تلک کشاں ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.