ہم نہ تنہا اس گلی سے جاں کو کھو کر اٹھ گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم نہ تنہا اس گلی سے جاں کو کھو کر اٹھ گئے
by میر حسن دہلوی

ہم نہ تنہا اس گلی سے جاں کو کھو کر اٹھ گئے
سیکڑوں یاں زندگی سے ہاتھ دھو کر اٹھ گئے

دیکھنے پائے نہ ہم اشکوں کا اپنے کچھ ثمر
تخم گویا یاس کے یہ تھے جو بو کر اٹھ گئے

کل ترے بن باغ میں کچھ دل نہ اپنا جو لگا
اشک خونیں میں گلوں کو ہم ڈبو کر اٹھ گئے

لوٹتے ہیں اس ادا و ناز پر اور غش میں ہم
تھے وہ احمق جو کہ تیری کھا کے ٹھوکر اٹھ گئے

جان و دل ہم اک جگہ بیٹھے تھے کوچہ میں ترے
پاسباں کے ہاتھ سے آوارہ ہو کر اٹھ گئے

تو گیا تھا ڈھونڈھنے ان کو کہاں وے تو حسنؔ
تیرے گھر میں آئے بیٹھے لیٹے سو کر اٹھ گئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse