ہم ناقصوں کے دور میں کامل ہوئے تو کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم ناقصوں کے دور میں کامل ہوئے تو کیا
by امداد علی بحر

ہم ناقصوں کے دور میں کامل ہوئے تو کیا
اجڑے ہوئے علاقے کے عامل ہوئے تو کیا

ہم کو تو افتخار ہے پیغام یار پر
جبریل آسمان سے نازل ہوئے تو کیا

مدت سے پھر رہی ہے چھری جان زار پر
ہم آج تیغ یار سے بسمل ہوئے تو کیا

داغوں میں اس کے داغ محبت کی بو کہاں
لالے کے پھول ہم سے مقابل ہوئے تو کیا

راحت نصیب ہم کو ہوئی رحمت اے کریم
ٹکرا کے سر بہشت میں داخل ہوئے تو کیا

پھولوں میں زر لٹا نہ گل سرخ کا کبھی
بے فیض لوگ رونق محفل ہوئے تو کیا

اس کی صفت یہی ہے کہ بے مانگے دی مراد
درگاہ میں کریم کے سائل ہوئے تو کیا

آسان ہیں جو ناخن تقدیر تیز ہے
مطلب ہمارے عقدۂ مشکل ہوئے تو کیا

مردوں کو زندہ کیجیے نام آوری یہ ہے
عیسیٰ بناؤ آپ کو قاتل ہوئے تو کیا

ہر دم چراغ دل کی ادھر لو لگی رہے
ہم اپنی یادگار سے غافل ہوئے تو کیا

ہوگا نہ ایک رنگ خزان و بہار کا
بوڑھے اگر جوانوں کے شامل ہوئے تو کیا

اپنے مآل کار سے جب بے خبر ہوئے
حافظ ہوئے تو خاک جو فاصل ہوئے تو کیا

تن سے مفارقت نہیں کرتی تب فراق
تعویذ بھی گلے میں حمائل ہوئے تو کیا

اے بحرؔ باغبان کی منت بلا کرے
دو چار پھول باغ سے حاصل ہوئے تو کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse