ہم میکدے سے مر کے بھی باہر نہ جائیں گے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم میکدے سے مر کے بھی باہر نہ جائیں گے
by بیدم وارثی

ہم میکدے سے مر کے بھی باہر نہ جائیں گے
میکش ہماری خاک کے ساغر بنائیں گے

وہ اک کہیں گے ہم سے تو ہم سو سنائیں گے
منہ آئیں گے ہمارے تو اب منہ کی کھائیں گے

کچھ چارہ سازی نالوں نے کی ہجر میں مری
کچھ اشک میرے دل کی لگی کو بجھائیں گے

وہ مثل اشک اٹھ نہیں سکتا زمین سے
جس کو حضور اپنی نظر سے گرائیں گے

جھونکے نسیم صبح کے آ آ کے ہجر میں
اک دن چراغ ہستیٔ عاشق بجھائیں گے

صحرا کی گرد ہوگی کفن مجھ غریب کا
اٹھ کر بگولے میرا جنازہ اٹھائیں گے

اب ٹھان لی ہے دل میں کہ سر جائے یا رہے
جیسے اٹھے گا بار محبت اٹھائیں گے

گردش نے میری چرخ کا چکرا دیا دماغ
نالوں سے اب زمیں کے طبق تھرتھرائیں گے

بیدمؔ وہ خوش نہیں ہیں تو اچھا یوں ہی سہی
ناخوش ہی ہو کے غیر مرا کیا بنائیں گے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse