ہم موت بھی آئے تو مسرور نہیں ہوتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم موت بھی آئے تو مسرور نہیں ہوتے
by فانی بدایونی

ہم موت بھی آئے تو مسرور نہیں ہوتے
مجبور غم اتنے بھی مجبور نہیں ہوتے

دل ہی میں نہیں رہتے آنکھوں میں بھی رہتے ہو
تم دور بھی رہتے ہو تو دور نہیں ہوتے

پڑتی ہیں ابھی دل پر شرمائی ہوئی نظریں
جو وار وہ کرتے ہیں بھرپور نہیں ہوتے

امید کے وعدوں سے جی کچھ تو بہلتا تھا
اب یہ بھی ترے غم کو منظور نہیں ہوتے

ارباب محبت پر تم ظلم کے بانی ہو
یہ ورنہ محبت کے دستور نہیں ہوتے

کونین پہ بھاری ہے اللہ رے غرور ان کا
اتنے بھی ادا والے مغرور نہیں ہوتے

ہے عشق ترا فانیؔ تشہیر بھی شہرت بھی
رسوائے محبت یوں مشہور نہیں ہوتے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse