ہم موئے پھرتے ہیں اور خواہش جاں ہے اس کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم موئے پھرتے ہیں اور خواہش جاں ہے اس کو
by قائم چاندپوری

ہم موئے پھرتے ہیں اور خواہش جاں ہے اس کو
اب تلک بھی وہی جینے کا گماں ہے اس کو

اے دل افسردگیٔ داغ سے کیوں ہے تو ملول
جو گل اس باغ میں آیا ہے خزاں ہے اس کو

قصۂ برہنہ پائی کو مرے اے مجنوں
خار سے پوچھ کہ سب نوک زباں ہے اس کو

آگے اس گل کے نہ مارا کبھو غنچے نے تو دم
چاہے بلبل سو کہے تاب بیاں ہے اس کو

اے فلک بوجھ دو عالم کا تو قائمؔ پہ نہ ڈال
اپنی ہستی بھی کچھ ان روزوں گراں ہے اس کو

کر کے ہے ہے اے نم اشک تو رووے مجھ کو
آج اگر سیل میں خوں کے نہ ڈبووے مجھ کو

خاک جوں آئنہ ملنا مجھے رکھتا ہے شگوں
تیرہ تر ہوں میں جو پانی سے تو دھووے مجھ کو

فائدہ گل کا نہ مجھ سے ہے نہ سائے کی امید
کہہ دو دہقاں سے کہ بے ہودہ نہ بووے مجھ کو

گرمئ نالہ سے میں آج جلا جاتا ہوں
کو دم سرد کہ آ کر وہ سمووے مجھ کو

ساتھ ہے سنگ و شرر کا یہ کہو اس بت سے
کیا ہو آغوش میں گر لے کے وہ سووے مجھ کو

نہ ملاقات نہ اشفاق نہ وعدہ نہ پیام
کیوں کہ تسکین ترے ہجر میں ہووے مجھ کو

خاتم دست سلیماں سے ہوں قائمؔ میں عزیز
سخت پچھتائے وہ جو ہاتھ سے کھووے مجھ کو


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.