ہم معنی ہوس نہیں اے دل ہوائے دوست

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم معنی ہوس نہیں اے دل ہوائے دوست
by محمد علی جوہر

ہم معنی ہوس نہیں اے دل ہوائے دوست
راضی ہو بس اسی میں ہو جس میں رضائے دوست

طغرائے امتیاز ہے خود ابتلائے دوست
اس کے بڑے نصیب جسے آزمائے دوست

یاں جنبش مژہ بھی گناہ عظیم ہے
چپ چاپ دیکھتے رہو جو کچھ دکھائے دوست

ملتی نہیں کسی کو سند امتحاں بغیر
دار و رسن کے حکم کو سمجھو صلائے دوست

یعقوب پر فضول ہوئے لوگ خندہ زن
یاں لا مکاں سے آتی ہے بوئے قبائے دوست

کیا کم تھا ہجر یار ہی پھر اس پہ رشک غیر
دشمن کو بھی خدا نہ کرے مبتلائے دوست

ہے روح بھی نثار بدن بھی نثار یار
دل بھی فدائے دوست جگر بھی فدائے دوست

جوہرؔ وہ صبر آپ ہی دے گا اگر ہمیں
ہے امتیاز وعدۂ صبر آزمائے دوست

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse