ہم قتل ہو گئے نہیں تجھ کو خبر ہنوز

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم قتل ہو گئے نہیں تجھ کو خبر ہنوز
by میر حسن دہلوی

ہم قتل ہو گئے نہیں تجھ کو خبر ہنوز
باندھے پھرے ہے ہم پہ میاں تو کمر ہنوز

سو سو طرح کے وصل نے مرہم رکھے ولے
زخم فراق ہیں مرے ویسے ہی تر ہنوز

کھولی تھی خواب ناز سے کس نے یہ اٹھ کے زلف
لاتی ہے بوئے ناز نسیم سحر ہنوز

وعدوں پہ تیرے کام بھی میرا ہوا تمام
باتیں ہی تو بنایا کیا یار پر ہنوز

جو دودھ کا جلا ہو پئے چھاچھ پھونک پھونک
ہوں وصل میں پہ ہجر سے ہے مجھ کو ڈر ہنوز

بھولے سے تو نے پیار کی اک دن کہی جو بات
روتا ہوں دل ہی دل میں اسے یاد کر ہنوز

اجڑے ہزار شہر حسنؔ اور پھر بسے
آباد پر ہوا نہ یہ دل کا نگر ہنوز

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse