Jump to content

ہم عشق میں ان مکاروں کے بے فائدہ جلتے بھنتے ہیں

From Wikisource
ہم عشق میں ان مکاروں کے بے فائدہ جلتے بھنتے ہیں
by نوح ناروی
331260ہم عشق میں ان مکاروں کے بے فائدہ جلتے بھنتے ہیںنوح ناروی

ہم عشق میں ان مکاروں کے بے فائدہ جلتے بھنتے ہیں
مطلب جو ہمارا سن سن کر کہتے ہیں ہم اونچا سنتے ہیں

ہم کچھ نہ کسی سے کہتے ہیں ہم کچھ نہ کسی کی سنتے ہیں
بیٹھے ہوئے بزم دل کش میں بس دل کے ٹکڑے چنتے ہیں

الفت کے فسانے پر دونوں سر اپنا اپنا دھنتے ہیں
ہم سنتے ہیں وہ کہتے ہیں ہم کہتے ہیں وہ سنتے ہیں

دل سا بھی کوئی ہم درد نہیں ہم سا بھی کوئی دل سوز نہیں
ہم جلتے ہیں تو دل جلتا ہے دل بھنتا ہے تو ہم بھنتے ہیں

تقدیر کی گردش سے نہ رہا محفوظ ہمارا دامن بھی
چنتے تھے کبھی ہم لالہ و گل اب کنکر پتھر چنتے ہیں

آج آئیں گے کل آئیں گے کل آئیں گے آج آئیں گے
مدت سے یہی وہ کہتے ہیں مدت سے یہی ہم سنتے ہیں

آہیں نہ کبھی منہ سے نکلیں نالے نہ کبھی آئے لب تک
ہو ضبط تپ الفت کا برا ہم دل ہی دل میں بھنتے ہیں

مرغان چمن بھی میری طرح دیوانے ہیں لیکن فرق یہ ہے
میں دشت میں تنکے چنتا ہوں وہ باغ میں تنکے چنتے ہیں

ہو بزم طرب یا بزم الم ہر مجمع میں ہر موقع پر
ہم شمع کے شعلے کی صورت جلتے بھی ہیں سر بھی دھنتے ہیں

گلزار جہاں کی نیرنگی آزار جنہیں پہنچاتی ہے
کانٹوں کو ہٹا کر دامن میں وہ پھول چمن کے چنتے ہیں

آزار و ستم کے شکوؤں کا جھگڑا بھی چکے قصہ بھی مٹے
تم سے جو کہے کچھ بات کوئی کہہ دو اسے ہم کب سنتے ہیں

گھبرا کے جو میں ان کے در پر دیتا ہوں کبھی آواز انہیں
تو کہتے ہیں وہ ٹھہرو دم لو آتے ہیں اب افشاں چنتے ہیں

اے نوحؔ کہاں وہ جوش اپنا وہ طور اپنے وہ بات اپنی
طوفان اٹھاتے تھے پہلے اب حسرت سے سر دھنتے ہیں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.