ہم سے کرتا ہے عبث گفتار کج
Appearance
ہم سے کرتا ہے عبث گفتار کج
راست بازوں سے نہ ہو اے یار کج
عشق ابرو سے تری اے کج کلاہ
باندھتا ہے ماہ نو دستار کج
ہے تواضع بھی بزرگی کا نشاں
کیوں نہ ہو پیری میں جسم زار کج
کج روی اس زلف کا ہے خاصہ
جس طرح ہے مار کی رفتار کج
ہات یوں قاتل جبینوں کا لگا
جس طرح پہنے صنم زنار کج
راستی اک بات میں اس کی نہیں
کج روا کج مج زباں گفتار کج
قصر تن پیری میں جھک کر کیا رکے
گر پڑے کہنہ جو ہو دیوار کج
جائے نظارہ ہے پھرتے ہیں حسیں
ٹوپیاں رکھ کر سر بازار کج
کج نما آئینۂ عالم ہے عرشؔ
بے سبب ٹیڑھے عبث ہیں یار کج
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |