ہم سے کرتا ہے عبث گفتار کج

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم سے کرتا ہے عبث گفتار کج
by میر کلو عرش

ہم سے کرتا ہے عبث گفتار کج
راست بازوں سے نہ ہو اے یار کج

عشق ابرو سے تری اے کج کلاہ
باندھتا ہے ماہ نو دستار کج

ہے تواضع بھی بزرگی کا نشاں
کیوں نہ ہو پیری میں جسم زار کج

کج روی اس زلف کا ہے خاصہ
جس طرح ہے مار کی رفتار کج

ہات یوں قاتل جبینوں کا لگا
جس طرح پہنے صنم زنار کج

راستی اک بات میں اس کی نہیں
کج روا کج مج زباں گفتار کج

قصر تن پیری میں جھک کر کیا رکے
گر پڑے کہنہ جو ہو دیوار کج

جائے نظارہ ہے پھرتے ہیں حسیں
ٹوپیاں رکھ کر سر بازار کج

کج نما آئینۂ عالم ہے عرشؔ
بے سبب ٹیڑھے عبث ہیں یار کج

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse