ہم سے تو کسی کام کی بنیاد نہ ہووے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم سے تو کسی کام کی بنیاد نہ ہووے
by میر حسن دہلوی

ہم سے تو کسی کام کی بنیاد نہ ہووے
جب تک کہ ادھر ہی سے کچھ امداد نہ ہووے

ہم کو بھی نہیں چین ترے غمزوں سے دلبر
جب تک کہ نیا اک ستم ایجاد نہ ہووے

اے آہ ذرا اٹھیو تو آہستہ کہ وہ جو
تھوڑا سا اثر ہے کہیں برباد نہ ہووے

دی تھی یہ دعا کس نے مرے دل کو الٰہی
اجڑے یہ گھر ایسا کہ پھر آباد نہ ہووے

دیکھا نہ کسی وقت میں ہنستے ہوے اس کو
یہ بھی کوئی دل ہے جو کبھی شاد نہ ہووے

بھولے سے بھی بھولو نہ کبھی غیروں کا تم نام
اور نام ہمارا ہی تمہیں یاد نہ ہووے

کیوں دیکھو ہو اس کا قد و رو بلبل و قمری
کیا سمجھے ہو تم یہ گل و شمشاد نہ ہووے

مر جائیں قفس میں یوں ہی ہم آہ تڑپ کر
اتنی جو خبر لینے کو صیاد نہ ہووے

دل جل کے جہاں سرمہ ہوا قیس کا اب تک
اس جا پہ جرس پہنچے تو فریاد نہ ہووے

میرے لئے قاتل بھی اگر ہووے تو ہووے
پر غیر کے حق میں تو وہ جلاد نہ ہووے

وارستہ جو ہو قید سے ہستی کے تو بہتر
پر دام سے تیرے حسنؔ آزاد نہ ہووے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse