ہم سمجھتے ہیں آزمانے کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم سمجھتے ہیں آزمانے کو
by مومن خان مومن

ہم سمجھتے ہیں آزمانے کو
عذر کچھ چاہیئے ستانے کو

سنگ در سے ترے نکالی آگ
ہم نے دشمن کا گھر جلانے کو

صبح عشرت ہے وہ نہ شام وصال
ہاے کیا ہو گیا زمانے کو

بوالہوس روئے میرے گریہ پہ اب
منہ کہاں تیرے مسکرانے کو

برق کا آسمان پر ہے دماغ
پھونک کر میرے آشیانے کو

سنگ سودا جنوں میں لیتے ہیں
اپنا ہم مقبرہ بنانے کو

شکوہ ہے غیر کی کدورت کا
سو مرے خاک میں ملانے کو

روز محشر بھی ہوش گر آیا
جائیں گے ہم شراب خانے کو

سن کے وصف اس پہ مر گیا ہمدم
خوب آیا تھا غم اٹھانے کو

کوئی دن ہم جہاں میں بیٹھے ہیں
آسماں کے ستم اٹھانے کو

نقش پائے رقیب کی محراب
نہیں زیبندہ سر جھکانے کو

چل کے کعبے میں سجدہ کر مومنؔ
چھوڑ اس بت کے آستانے کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse