ہم سلامت ہیں تو اپنا گھر بھی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم سلامت ہیں تو اپنا گھر بھی ہے  (1934) 
by ابومحمد سید حسین سیفی

ہم سلامت ہیں تو اپنا گھر بھی ہے
زر بھی ہے زر گر بھی ہے زیور بھی ہے

ابر نیساں آئے اور برسے تو پھر
گل بھی ہے گلشن بھی ہے گوہر بھی ہے

دید کی قوت ہو جب تک آنکھ میں
مہر بھی ہے مہ بھی ہے اختر بھی ہے

بخت جب تک برسر اقبال ہو
تخت بھی ہے تاج بھی ہے سر بھی ہے

ساقئ مہوش اگر ہو مہرباں
مے بھی ہے مینا بھی ہے ساغر بھی ہے

موت کی آنکھوں سے جب تک دور ہیں
چلقد آہن بھی ہے مغفر بھی ہے

وقت پر قائم رہے ہمت اگر
لٹ بھی ہے پتھر بھی ہے خنجر بھی ہے

عقل جب تک پاسباں ہے جان کی
خوف بھی ہے ترس بھی ہے ڈر بھی ہے

قوت پرواز کچھ بھی ہے تو پھر
پر بھی ہے بازو بھی ہے شہ پر بھی ہے

شوق اگر ہے منزل مقصود کا
رہ بھی ہے رہرو بھی ہے رہبر بھی ہے

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse