ہم سر زلف قد حور شمائل ٹھہرا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم سر زلف قد حور شمائل ٹھہرا
by امیر مینائی

ہم سر زلف قد حور شمائل ٹھہرا
لام کا خوب الف مد مقابل ٹھہرا

دیدۂ تر سے جو دامن میں گرا دل ٹھہرا
بہتے بہتے یہ سفینہ لب ساحل ٹھہرا

کی نظر روئے کتابی پہ تو کچھ دل ٹھہرا
مکتب شوق بھی قرآن کی منزل ٹھہرا

نگہت گل سے پریشان ہوا اس کا دماغ
خندۂ گل نہ ہوا شور عنادل ٹھہرا

نجد سے قیس جو آیا مرے زنداں کی طرف
دیر تک گوش بر آواز سلاسل ٹھہرا

حسن جس طفل کا چمکا وہ ہوا باعث قتل
جس نے تلوار سنبھالی مرا قاتل ٹھہرا

خط جو نکلا رخ جاناں پہ ملا بوسۂ خال
یہی دانہ فقط اس کشت کا حاصل ٹھہرا

علم اک نقطہ جو مشہور تھا اے جوش جنوں
غور سے کی جو نظر نقطۂ باطل ٹھہرا

دور جب تک تھے تڑپتا تھا میں کیسا کیسا
پاس آ کر وہ جو ٹھہرے تو مرا دل ٹھہرا

کثرت داغ سے گلدستہ بنا دل تو کیا
زینت باغ نہ آرائش محفل ٹھہرا

دوڑتا قیس بھی آتا ہے نہایت ہی قریب
اک ذرا ناقے کو اے صاحب محمل ٹھہرا

دم جو بیتاب تھا مدت سے مرے سینے میں
تیغ قاتل کے تلے کچھ دم بسمل ٹھہرا

ہم بڑی دور سے آئے ہیں تمہارا ہے یہ حال
گھر سے دروازے تک آنا کئی منزل ٹھہرا

اب تک آتی ہے صدا تربت لیلیٰ سے امیرؔ
ساربان اب تو خدا کے لیے محمل ٹھہرا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse