ہم زاد ہے غم اپنا شاداں کسے کہتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم زاد ہے غم اپنا شاداں کسے کہتے ہیں
by امداد علی بحر

ہم زاد ہے غم اپنا شاداں کسے کہتے ہیں
واقف نہیں عشرت کا ساماں کسے کہتے ہیں

بیمار محبت ہیں ہم تارک راحت ہیں
ناواقف صحت ہیں درماں کسے کہتے ہیں

مدت سے یہ ساماں ہے تن شعلۂ عریاں ہے
کیا چیز گریباں ہے داماں کسے کہتے ہیں

ماتھے پہ پسینہ ہے قدرت کا تماشا ہے
تاروں کی جھمک کیا ہے افشاں کسے کہتے ہیں

دل دے کے جفا سہیے آفت میں پھنسے رہیے
دانا جو ہمیں کہیے ناداں کسے کہتے ہیں

جب یار نے دیکھا ہے اک زخم لگایا ہے
سو تیروں کا دستا ہے مژگاں کسے کہتے ہیں

اس ترک کی پلکوں سے محفوظ خدا رکھے
بر کٹتے ہیں تیروں کی پیکاں کسے کہتے ہیں

دل کی جو زراعت ہے خار و خس زحمت سے
اک قطرے کی حسرت ہے باراں کسے کہتے ہیں

سچ کہتے ہیں یہ زیرک ہے عشق جنوں بے شک
واقف نہ تھے ہم گل تک زنداں کسے کہتے ہیں

ہر وقت ہے بے زاری ہر دم ہے جفاکاری
دل جوئی و دل داریٔ جاناں کسے کہتے ہیں

رخسار کا شیدا ہوں کیا گل کو سمجھتا ہوں
محو خط زیبا ہوں ریحاں کسے کہتے ہیں

مدت سے ہے دل برہم صحبت سے نہیں محرم
آزاد ہیں گھر سے ہم مہماں کسے کہتے ہیں

جاتے ہیں کبھی درگاہ شیوالے میں بھی ہے راہ
مذہب سے نہیں آگاہ ایماں کسے کہتے ہیں

حیدر سے تولا‌ ہے رحمت کا بھروسا ہے
اے بحرؔ خطا کیا ہے عصیاں کسے کہتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse