ہم رہے یاں تلک ترے غم میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم رہے یاں تلک ترے غم میں
by میر مظفر حسین ضمیر

ہم رہے یاں تلک ترے غم میں
کہ ترا غم سما گیا ہم میں

کیوں نہ ہو عشق حسن گندم گوں
میں بھی آخر ہوں نسل آدم میں

ہے عرق میں بھی اس کے نکہت عطر
گل کی بو آ گئی ہے شبنم میں

میرے اشکوں کے روبرو دریا
ہے بڑا فرق قطرہ و یم میں

جیسا جام جہاں نما ہے دل
سیر وہ کب ہے ساغر جم میں

دل کا ناسور دل کے ساتھ چلا
کیے مرہم تلاش مرہم میں

جو پھنسا پھر کبھی رہا نہ ہوا
ہے یہی پیچ زلف کے خم میں

نزع کے وقت بھی فریب رہا
وہ جو آیا دم آ گیا دم میں

اس میں بیم ہلاک اس میں ہلاک
ہے یہی فرق ہم میں اور غم میں

شمع سے رات یہ کہا میں نے
کہہ تو روتی ہے کس کے ماتم میں

بولی اے فخر عاشقان جہاں
کیا کہوں میں کہ دم نہیں دم میں

ہو گیا خاک جل کے پروانہ
رہی میں آہ بزم عالم میں

شب جو اک دوست اپنا یعنی دل
پھنس گیا اس کی زلف پر خم میں

اپنا کچھ بس نہ چل سکا لیکن
اشک بھر آئے چشم پر نم میں

تو چراغ مزار غیر رہا
ہم گھلے شمع ساں ترے غم میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse