ہم رنگ لاغری سے ہوں گل کی شمیم کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم رنگ لاغری سے ہوں گل کی شمیم کا
by مومن خان مومن

ہم رنگ لاغری سے ہوں گل کی شمیم کا
طوفان باد ہے مجھے جھونکا نسیم کا

چھوڑا نہ کچھ بھی سینے میں طغیان اشک نے
اپنی ہی فوج ہو گئی لشکر غنیم کا

یاران نو کے واسطے مجھ سے خفا ہوئے
تم کو نہیں ہے پاس نیاز قدیم کا

یاد آئی کافروں کو مری آہ سرد کی
کیونکہ نہ کانپنے لگے شعلہ جحیم کا

ازبسکہ ثبت نامہ ہے سوز تپ دروں
قاصد کا ہاتھ ہے ید بیضا کلیم کا

واعظ کبھی ہلا نہیں کوئے صنم سے میں
کیا جانوں کیا ہے مرتبہ عرش عظیم کا

مارا ہے وصل غیر کے شکوہ پہ چاہیئے
مدفن جدا جدا مری لاش دو نیم کا

کہتا ہے بات بات پہ کیوں جان کھا گئے
گویا کہ پک گیا ہے کلیجہ ندیم کا

واعظ بتوں کو خلد میں لے جائیں گے کہیں
ہے وعدہ کافروں سے عذاب الیم کا

مومنؔ تجھے تو وہب ہے مومن ہی وہ نہیں
جو معتقد نہیں تری طبع سلیم کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse