ہم دیکھیں کس دن حسن اے دل اس رشک پری کا دیکھیں گے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم دیکھیں کس دن حسن اے دل اس رشک پری کا دیکھیں گے
by نظیر اکبر آبادی

ہم دیکھیں کس دن حسن اے دل اس رشک پری کا دیکھیں گے
وہ قد وہ کمر وہ چشم وہ لب وہ زلف وہ مکھڑا دیکھیں گے

مت دیکھ بتوں کی ابرو کو ہٹ یاں سے تو اے دل ورنہ تجھے
ایک آن میں بسمل کر دیں گے اور آپ تماشا دیکھیں گے

دل دے کر ہم نے آج اسے ہی دیکھی صورت تیوری کی
یہ شکل رہی تو اے ہمدم کل دیکھیں کیا کیا دیکھیں گے

جب دیکھی اس کی چین جبیں یوں ہم نے نظیرؔ اس بت سے کہا
خیر آپ تو ہم سے ناخوش ہیں اب اور کو ہم جا دیکھیں گے

کیا لطف رہا اس چاہت میں جو ہم چاہیں اور تم ہو خفا
یہ بات سنی تو وہ چنچل یوں ہنس کر بولا دیکھیں گے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse