ہم جو مست شراب ہوتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم جو مست شراب ہوتے ہیں
by امیر مینائی

ہم جو مست شراب ہوتے ہیں
ذرے سے آفتاب ہوتے ہیں

ہے خرابات صحبت واعظ
لوگ ناحق خراب ہوتے ہیں

کیا کہیں کیسے روز و شب ہم سے
عمل ناثواب ہوتے ہیں

بادشہ ہیں گدا، گدا سلطان
کچھ نئے انقلاب ہوتے ہیں

ہم جو کرتے ہیں مے کدے میں دعا
اہل مسجد کو خواب ہوتے ہیں

وہی رہ جاتے ہیں زبانوں پر
شعر جو انتخاب ہوتے ہیں

کہتے ہیں مست رند سودائی
خوب ہم کو خطاب ہوتے ہیں

آنسوؤں سے امیرؔ ہیں رسوا
ایسے لڑکے عذاب ہوتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse