ہم تو یاں مرتے ہیں واں اس کو خبر کچھ بھی نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم تو یاں مرتے ہیں واں اس کو خبر کچھ بھی نہیں
by قلق میرٹھی

ہم تو یاں مرتے ہیں واں اس کو خبر کچھ بھی نہیں
اے وہ سب کچھ ہی سہی عشق مگر کچھ بھی نہیں

تم کو فریاد ستم کش کا خطر کچھ بھی نہیں
کچھ تو الفت کا اثر ہے کہ اثر کچھ بھی نہیں

عافیت ایک اور آزار ہزاروں اس میں
جس کو کچھ سود نہیں اس کو ضرر کچھ بھی نہیں

خلوت راز میں کیا کام ہے ہنگامے کا
ہے خبردار وہی جس کو خبر کچھ بھی نہیں

تو اور اک شان کہ عالم کی نظر میں کیا کچھ
میں اور اک جان کہ پھرتے ہی نظر کچھ بھی نہیں

رحم ہے اس کا ہی آشوب قیامت کی دلیل
جس سے بیزار ہے وہ اس کو خطر کچھ بھی نہیں

ہم کو اس حوصلے پہ کیوں کہ فلک دے ساماں
شکوۂ بار ہے اور منت سر کچھ بھی نہیں

راہیٔ ملک عدم ہیں نہیں فکر منزل
قصد رکھتے ہیں ادھر کا کہ جدھر کچھ بھی نہیں

زیست افسون تماشا ہے توہم کے لئے
ہوتی ہے جلوہ نما مثل شرر کچھ بھی نہیں

خود پرستی کے سبب شیخ و برہمن کو ہے خبط
سب ادھر ہی کی بناوٹ ہے ادھر کچھ بھی نہیں

عاقبت بیں کو ہے ہر بزم کی شادی ماتم
شمع روتی ہے کہ ہوتے ہی سحر کچھ بھی نہیں

روز فرقت کی درازی سے نہ دیکھے شب ہجر
حسرت شام میں تشویش سحر کچھ بھی نہیں

جانتے ہیں کہ نہ بھٹکے گا جہاں کیا کیا کچھ
دیکھتے ہیں کہ انہیں مد نظر کچھ بھی نہیں

اے قلقؔ پیتے ہی مسجد میں چلے آتے ہو
بے خبر کتنے ہو تم بھی کہ خبر کچھ بھی نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse