ہم تو قصوروار ہوئے آنکھ ڈال کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم تو قصوروار ہوئے آنکھ ڈال کے
by جلیل مانکپوری

ہم تو قصوروار ہوئے آنکھ ڈال کے
پوچھو کہ نکلے کیوں تھے وہ جوبن نکال کے

آنکھوں سے خواب کا ہو گزر کیا مجال ہے
پہرے بٹھا دیے ہیں کسی کے خیال کے

دل میں وہ بھیڑ ہے کہ ذرا بھی نہیں جگہ
آپ آئیے مگر کوئی ارماں نکال کے

صد شکر وصف قد پہ وہ اتنا تو پھول اٹھے
مضموں بلند ہیں مرے عالی خیال کے

لذت یہی کھٹک کی جو ہے راہ عشق میں
رکھ لوں گا دل میں پاؤں کے کانٹے نکال کے

دل رہ گیا الجھ کے نگاہوں کے تار میں
اچھا وہ جان ڈال گئے آنکھ ڈال کے

سنیے تو اک ذرا مرے اشعار دردناک
لایا ہوں میں کلیجے کے ٹکڑے نکال کے

آئینہ ہے جو ان کا مصاحب تو کیا ہوا
ہم بھی کبھی تھے دیکھنے والے جمال کے

لکھی ہے کھا کے خون جگر یہ غزل جلیلؔ
مصرع نہیں ہیں شعر کے ٹکڑے ہیں لال کے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse