ہم تری خاطر نازک سے خطر کرتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم تری خاطر نازک سے خطر کرتے ہیں
by میر محمدی بیدار

ہم تری خاطر نازک سے خطر کرتے ہیں
ورنہ نالے تو یہ پتھر میں اثر کرتے ہیں

دل و دیں تھا سو لیا اور بھی کچھ مطلب ہے
بار بار آپ جو ایدھر کو نظر کرتے ہیں

فائدہ کیا ہے اگر شرق سے تا غرب پھرے
راہرو وے ہیں جو ہستی سے سفر کرتے ہیں

ہم تو ہر شکل میں یاں آئنہ خانے کی مثال
آپ ہی آتے ہیں نظر سیر جدھر کرتے ہیں

کیا ہو گر کوئی گھڑی یاں بھی کرم فرماؤ
آپ اس راہ سے آخر تو گزر کرتے ہیں

تیرے ایام فراق اے صنم مہر گسل
آہ مت پوچھ کہ کس طرح بسر کرتے ہیں

دن کو پھرتے ہیں تجھے ڈھونڈنے اور رات تمام
شمع کی طرح سے رو رو کے سحر کرتے ہیں

بس نہیں خوب کہ ایسے کو دل اپنا دیجے
آگے تو جان میاں ہم تو خبر کرتے ہیں

یہ وہی فتنۂ آشوب جہاں ہے بیدارؔ
دیکھ کر پیر و جواں جس کو حذر کرتے ہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.