ہم بھی دیکھیں گے کہ آنا ترا کیونکر نہ ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم بھی دیکھیں گے کہ آنا ترا کیونکر نہ ہوا
by مرزا رحیم الدین حیا

ہم بھی دیکھیں گے کہ آنا ترا کیونکر نہ ہوا
یہ بھی اک کھیل ہوا فتنۂ محشر نہ ہوا

ہم ہی تھے خاک کے پتلے کہ ہوئے جل کر خاک
اے فلک اور کوئی تجھ کو میسر نہ ہوا

وائے ناکامئ قسمت کہ کبھی حلق اپنا
قابل خنجر و شمشیر ستم گر نہ ہوا

ہم نہ کہتے تھے کیا کر نہ سدا شور‌ و فغاں
انہیں باتوں سے ٹھکانا دل مضطر نہ ہوا

میری وحشت نے کیا حشر میں ہنگامہ سا
چاک سو جائے سے کم دامن محشر نہ ہوا

حسرت اس عاشق ناشاد پہ جس کا یہ حال
نہ ہوا وصل بتاں اور اسے دوبھر نہ ہوا

ہم تو کہتے تھے دلا جی کا لگانا ہے برا
آخرش آگے وہ آیا نہ کہ بہتر نہ ہوا

آب شمشیر ترا کام نہ آیا اپنے
دہن خشک و لب تشنہ گلو تر نہ ہوا

قسمت غیر ہی اچھی ہے کہ ہر دم ہے وصال
ہم سے تو حشر کا بھی وعدہ مقرر نہ ہوا

سختیاں تھیں میرے قسمت کی تری الفت میں
پیٹنا جاں کا کسی دن بت کافر نہ ہوا

ہیں یہ سامان شب عیش کے ناحق طعنے
کب تم آئے تھے کہ کچھ مجھ کو میسر نہ ہوا

جرم یک بوسہ ابرو پہ کئے دو ٹکڑے
ظلم یہ شکوہ یہ باقی کہ برابر نہ ہوا

گھر میں جاتی نہیں پہچانی تری شکل حیاؔ
اس پہ حسرت کہ در یار پہ بستر نہ ہوا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse