ہم ایسے کب تھے کہ خود بدولت یہاں بھی کرتے قدم نوازش

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم ایسے کب تھے کہ خود بدولت یہاں بھی کرتے قدم نوازش
by نظیر اکبر آبادی

ہم ایسے کب تھے کہ خود بدولت یہاں بھی کرتے قدم نوازش
مگر یہ اک اک قدم پر اے جاں فقط عنایت کرم نوازش

کہاں یہ گھر اور کہاں یہ دولت جو آپ آتے ادھر کو اے جاں
جو آن نکلے ہو بندہ پرور تو کیجے اب کوئی دم نوازش

لگا کے ٹھوکر ہمارے سر پر بلا تمہاری کرے تأسف
کہ ہم تو سمجھے ہیں اس کو دل سے تمہارے سر کی قسم نوازش

جواب مانگا جو نامہ بر سے تو اس نے کھا کر قسم کہا یوں
زباں قلم ہو جو جھوٹ بولے کہ واں نہیں یک قلم نوازش

اٹھاویں نازاں کے ہم نہ کیوں کر نظیرؔ دل سے کہ جن کے ہوویں
جفا تلطف عتاب شفقت غضب توجہ ہتم نوازش

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse