ہم اپنے ہی سر لیں گے مصیبت ہو کسی کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم اپنے ہی سر لیں گے مصیبت ہو کسی کی
by داغ دہلوی

ہم اپنے ہی سر لیں گے مصیبت ہو کسی کی
آئے گی اسی جان پہ آفت ہو کسی کی

ہم لطف کے رتبے کو ابھی جانچ رہے ہیں
دل دیں اگر ایسی ہی عنایت ہو کسی کی

کیوں وصل کی شب ہاتھ لگانے نہیں دیتے
معشوق ہو یا کوئی امانت ہو کسی کی

اے نامہ بر احوال غم ہجر تو لکھ دوں
ایسا نہ ہو میری ہی سی حالت ہو کسی کی

لڑنا کبھی ملنا کبھی آنا کبھی جانا
تم شوخ ہو یا شوخ طبیعت ہو کسی کی

لو رہنے دو تسکیں کے لئے غیر کی تصویر
شاید جو نہ ہوں میں تو ضرورت ہو کسی کی

یہ داغؔ ہماری نہیں سنتا نہیں سنتا
ایسی بھی الہی نہ بری مت ہو کسی کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse