ہم اپنا جو قصہ سنانے لگے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم اپنا جو قصہ سنانے لگے
by میر مہدی مجروح

ہم اپنا جو قصہ سنانے لگے
وہ بولے کہ پھر سر پھرانے لگے

کہا تھا اٹھا پردۂ شرم کو
وہ الٹا ہمیں کو اٹھانے لگے

ذرا دیکھیے ان کی صناعیاں
مجھے دیکھ کر منہ بنانے لگے

کہا میں نے مل یا مجھے مار ڈال
وہ جھٹ آستینیں چڑھانے لگے

مجھے آتے دیکھا جوں ہی دور سے
قدم وار جلدی اٹھانے لگے

اٹھے وہ تو اک حشر برپا کیا
جو بیٹھے تو فتنہ اٹھانے لگے

غذا غم میں تھی میری خون جگر
اب اعدا کا بھی رشک کھانے لگے

کمال تعشق نہیں ہے ہنوز
ابھی سے وہ منہ کو چھپانے لگے

خفا ہو کے جب بے بلائے گیا
مجھے دیکھ کر مسکرانے لگے

غنیمت ہے اتنا تو اٹھا حجاب
کہ اب خواب میں بھی وہ آنے لگے

وہ دل کے اڑانے سے واقف نہ تھے
ہمیں تو یہ گھاتیں بتانے لگے

مگر ان پہ راز محبت کھلا
جو مجروحؔ سے بچ کے جانے لگے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse