ہم اور ہمارا امتحان

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم اور ہمارا امتحان
by مرزا فرحت اللہ بیگ

جناب ایڈیٹر صاحب۔ السلام علیکم ذوق مرحوم فرما گئے ہیں،اے شمع تیری عمر طبیعی ہے ایک راتہنس کر گزار یا اسے رو کر گزار دےبعض انسان دنیا کے تاریک پہلو کو دیکھتے ہیں اور بعض روشن پہلو کو۔ ایک ہی چیز ایک کو بری معلوم ہوتی ہے اور دوسرے کو اچھی۔ امتحان ایک کے لئے آفت جان ہوتا ہے اور دوسرے کے لئے دل فریب۔ ان ہی دو رخوں کو دو صاحبوں نے اپنی اپنی سر گزشت میں دکھایا ہے۔ اس کے روشن رخ کا کچھ حصہ رسالہ افادہ میں چھپا تھا مگر وہ رسالے کے حق میں غالب کا قصیدہ ہو گیا اور اس کی اشاعت کے ساتھ ہی رسالہ افادہ کا خاتمہ با لخیر ہو گیا۔ اب یہ دونوں رخ رسالہ نمائش کے لئے بھیجتا ہوں۔ دونوں کو کو ایک ہی پرچہ میں چھاپ دیجئے تاکہ آپ کے رسالے کا حشر بھی اس کی نحوست سے کہیں وہ نہ ہو جو رسالہ افادہ کا ہوا۔ اگر چھاپنے کی ہمت نہ ہو تو مضمون واپس کر دیجئے۔ جو ایڈیٹر صاحب اپنے رسالے کی بنیاد کو بہت قوی سمجھتے ہیں ان کو بھیج دوں گا۔ دیکھوں وہ بھی اس ٹکر کی تاب لاتے ہیں یا نہیں۔ والسلام(مرزا الم نشرح ) تصویر کا ایک رخ 1 نہ ہوئی گر میرے پر چوں سے تسلی نہ سہیامتحاں اور بھی باقی ہے تو یہ بھی نہ سہیلوگ امتحان کے نام سے گھبراتے ہیں لیکن مجھے ان کے گھبرانے پر ہنسی آتی ہے۔ آخر امتحان ایسا کیا ہوا ہے۔ دو ہی صورتیں ہیں’فیل یا پاس‘ اس سال کامیاب نہ ہوئے آئندہ سال سہی۔ میں اپنے دوستوں اور ہم جماعتوں کو دیکھتا تھا کہ جوں جوں امتحان کے دن قریب آتے جاتے ان کے حواس پراں، ان کا دماغ مختل اور ان کی صورت اتنی سی نکلتی آتی تھی۔ بندۂ درگاہ پر امتحان کا نہ رتی برابر اثر پہلے تھا اور نہ اب ہے۔ گو امتحان سے فارغ ہو چکا ہوں لیکن اب بھی اس کے ختم ہو جانے کا افسوس ہے۔ امیدواروں کا مجمع، نئی نئی صورتیں، عجیب عجیب خیالات، یہ ایسی چیزیں ہیں جن سے کبھی دل سیر نہیں ہو سکتا۔ جی چاہتا ہے کہ تمام عمر امتحان ہوئے جائے لیکن پڑھنے اور یاد کرنے کی شرط اٹھا دی جائے۔ میری سنئے کہ دو سال میں لا کلاس کا کورس پورا کیا۔ مگر کس طرح؟ شام کو یاروں کے ساتھ ٹہلنے نکلتا، واپسی کے وقت لا کلاس میں بھی جھانک آتا۔ منشی صاحب دوست تھے اور لکچرار صاحب پڑھانے میں مستغرق۔ حاضری کی تکمیل میں کچھ دشواری نہ تھی۔ اب آپ ہی بتائیے کہ لا کلاس میں شریک ہونے سے میرے کس مشغلے میں فرق آ سکتا تھا؟ والد صاحب قبلہ خوش تھے کہ بیٹے کو قانون کا شوق ہو چلاہے۔ کسی زمانے میں بڑے بڑے وکیلوں کے کان کترے گا۔ ہم بھی بے فکر تھے کہ چلو دو برس تک تو کوئی محنت کے لئے کہہ نہیں سکتا۔ بعد میں دیکھئے کون جیتا ہے اور کون مرتا ہے۔ لیکن زمانہ آنکھ بند کئے گزرتا ہے۔ دو سال ایسے گزر گئے جیسے ہوا۔ لا کلاس کا صداقت نامہ بھی مل گیا۔ اب کیا تھا والدین امتحان وکالت کی تیاری کے لئے سر ہو گئے مگر میں بھی ایک ذات شریف ہوں۔ ایک بڑھیا اور ایک بڑھے کو دھوکا دینا کیا بڑی بات ہے۔ میں نے تقاضا کیاکہ علاحدہ کمرہ مل جائے تو محنت کروں۔ بال بچوں کی گڑبڑ میں مجھ سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ چند روز اسی حیلے سے ٹال دیے۔ لیکن تابکے! بڑی بی نے اپنے سونے کا کمرہ خالی کر دیا۔ اب میں دوسری چال چلا۔ دروازوں میں جو شیشے تھے ان پر کاغذ چپکا دیا۔ لمپ روشن کر کے آرام سے سات بجے سو جاتا اور صبح نو بجے اٹھتا۔ اگر کسی نے آواز دی اور آنکھ کھل گئی تو ڈانٹ دیا کہ خواہ مخواہ میری پڑھائی میں خلل ڈالا جاتا ہے۔ اگر آنکھ نہ کھلی اور صبح کو سونے کا الزام لگایا گیا تو کہہ دیا کہ میں پڑھتے وقت کبھی جواب نہ دوں گا، آئندہ کوئی مجھے دق نہ کرے۔ بعض وقت ایسا ہوا کہ لمپ بھڑک کر چمنی سیاہ ہو گئی اور میری زیادہ محویت اور محنت کا نتیجہ سمجھی گئی۔ بعض وقت والد، والدہ کہتے بھی تھے کہ اتنی محنت نہ کیا کرو لیکن میں زمانے کی ترقی کا نقشا کھینچ کر ان کا دل خوش کر دیا کرتا تھا۔ خدا خدا کر کے یہ مشکل بھی آسان ہوگئی اور امتحان کا زمانہ قریب آیا۔ میں نے گھر میں بہت کہا کہ ابھی میں امتحان کے لئے جیسا چاہئے ویسا تیار نہیں ہوں لیکن میری مسلسل حاضری، لا کلاس اور شبانہ روز کی محنت نے ان کے دلوں پر سکہ بٹھا رکھا تھا۔ وہ کب ماننے والے تھے۔ پھر بھی احتیاطاً اپنے بچاؤ کے لئے ان سے کہہ دیا اگر میں فیل ہو جاوں تو اس کی ذمے داری مجھ پر نہ ہوگی۔ کیونکہ میں ابھی اپنے آپ کو امتحان کے قابل نہیں پاتا۔ لیکن والد صاحب مسکرا کے بولے کہ امتحان سے کیوں ڈرے جاتے ہو، جب محنت کی ہے تو شریک بھی ہو جاؤ، کامیابی و ناکامیابی خدا کے ہاتھ ہے۔ مرد باید کہ ہراساں نشودمیں نے بھی تقدیر اور تدبیر پر ایک چھوٹا سا لکچر دے کر ثابت کر دیا کہ تدبیر کوئی چیز نہیں۔ تقدیر سے تمام دنیا کے کام چلتے ہیں۔ قصہ مختصر درخواست شرکت دی گئی اور منظور ہوگئی اور ایک دن وہ آیا کہ ہم ہال ٹکٹ لئے ہوئے مقام امتحان پر پہنچ ہی گئے، گو یاد نہیں کیا تھا لیکن دو وجہ سے کامیابی کی امید تھی۔ اول تو امداد غیبی، دوسرے پرچوں کی الٹ پھیر۔ شاید وہ حضرات جو امتحان میں کبھی شریک نہیں ہوئے، اس مضمون کو نہ سمجھیں اس لئے ذرا وضاحت سے عرض کرتا ہوں۔ ’’امداد غیبی‘‘ سے مراد امیدواران امتحان کی اصطلاح میں وہ مدد ہے جو ایک کو دوسرے سے یا کسی نیک ذات نگراں کار سے یا عند الموقع کتاب سے پہنچ جاتی ہے۔ پرچوں کی الٹ پھیر گو بظاہر مشکل معلوم ہوتی ہے لیکن تقدیر سب کچھ آسان کر دیتی ہے۔ بعض شریف کم حیثیت ملازم ایسے بھی نکل آتے ہیں جو بہ امید انعام پرچے بدل دیتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ اس سے ایک محنت کرنے والے کو نقصان پہنچ جاتا ہے لیکن تدبیر و تقدیر کا مسئلہ جیسا اس کا رروائی میں حل ہوتا ہے، دوسری کسی صورت میں حل نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ اور بھی صورتیں ہیں لیکن وہ بہت کم پیش آتی ہیں۔ اس لئے ان پر بھروسہ کرنا نادانی ہے۔ خیر آمدم بر سر مطلب! پونے دس بجے گھنٹی بجی اور ہم بسم اللہ کہہ کر کمرۂ امتحان میں داخل ہوئے۔ یہاں ایک بہت خلیق اور ہنس مکھ نگراں کار تھے۔ مجھے جگہ نہیں ملتی تھی۔ میں نے ان سے کہا۔ وہ میرے ساتھ ہو لئے، جگہ بتائی اور بڑی دیر تک ہنس ہنس کر باتیں کرتے رہے۔ میں سمجھا چلو بیڑا پار ہے اللہ دے اور بندہ لے۔ ٹھیک دس بجے پرچہ تقسیم ہوا۔ میں نے پرچہ لیا۔ سر سری نظر ڈالی اور میز پر رکھ دیا۔ لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ پرچہ پڑھنے کے بعد جیسا میرے چہرے پر اطمینان تھا شاید ہی کسی کے چہرے پر ہوگا۔ خود تو اس پرچے کے متعلق اندازہ نہ کر سکا لیکن نگراں کار صاحب کو یہ کہتے ضرور سنا کہ پرچہ مشکل ہے۔ میں کئی مرتبہ اول سے آخر تک اس کو پڑھ گیا لیکن نہ معلوم ہوا کس مضمون کا ہے۔ جوابات کی کاپی دیکھی۔ اس کے آخر کی ہدایتیں پڑھیں۔ صفحہ اول کی خانہ پری کی اور کھڑا ہو گیا۔ گارڈ صاحب فوراً ہی آئے۔ میں نے ان سے کہا جناب! یہ پرچہ کس مضمون کا ہے۔ وہ مسکرائے، زبان سے تو کچھ نہ بولے مگر پرچے کے عنوان پر انگلی رکھ دی۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ’’اصول قانون‘‘ کا پرچہ ہے۔ دل کھل گیا۔ اب کیا تھا میں نے بھی قلم اٹھا کر لکھنا شروع کر دیا۔ کیونکہ اصول کے لئے کسی کتاب کے پڑھنے کی ضرورت تو ہے ہی نہیں۔ اس مضمون پر ہر شخص کو رائے دینے کا حق حاصل ہے۔ ایک مقنن ایک اصول قائم کرتا ہے۔ دوسرا اس کو توڑ دیتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم اپنی رائے کو کسی دوسرے کی تجویز کا پابند کریں۔ میں نے اپنے برابر والے سے پوچھنے کی کوشش بھی کی۔ کچھ ادھر ادھر نگاہ بھی دوڑائی مگر وہ گارڈ صاحب میری حالت کو کچھ ایسا تاڑ گئے تھے کہ ہر وقت بلائے ناگہانی کی طرح سر پر ہی کھڑے رہتے تھے۔ ذرا میں نے ادھر ادھر گردن پھیری اور انہوں نے آواز دی کہ، ’’جناب اپنے پرچے پر نظر رکھئے۔‘‘ جب دوسروں سے مدد ملنے کی توقع منقطع ہو گئی تو میں نے دل میں سوچا کہ چلو ان گارڈ صاحب ہی سے پوچھیں۔ میں کھڑا ہو گیا۔ وہ آئے، میں نے دریافت کیا کہ، ’’جناب والا اس دوسرے سوال کا کیا جواب ہے۔‘‘ وہ مسکرائے اور کہا کہ ’’مجھے معلوم نہیں۔‘‘ میں نے کہا کہ یہ برابر والے بڑے زور سے لکھ رہے ہیں ان سے پوچھ دیجئے اور اگر آپ کو دریافت کرتے ہوئے لحاظ آتا ہے تو ذرا ادھر ٹہلتے ہوئے تشریف لے جائیے میں خود پوچھ لوں گا۔‘‘ مگر وہ کب ہلنے والے تھے۔ قطب ہو گئے۔ ان کا مسکرانا پہلے تو بہت اچھا معلوم ہوتا تھا لیکن پھر آخر میں تو زہر ہو گیا۔ میں واللہ سچ کہتا ہوں کہ اگر تمام عمر میں قلبی نفرت مجھے کسی سے ہوئی ہے تو انہیں صاحب سے ہوئی ہے۔ ان کا وہ مسکراتے ہوئے ٹہلنا مجھے ایسا برا معلوم ہوتا تھا کہ کئی دفعہ میں نے ارادہ کیا کہ اگر میرے برابر کھڑے ہو کر یہ مسکرائے تو ضرور گلخپ ہو جاؤں لیکن پھر سوچا کہ سرکاری معاملہ ہے۔ کہیں اینچن چھوڑ کر گھسیٹن میں نہ پڑ جاؤں۔ اس لئے چپکا ہو رہا۔ غرض اس طرح یہ تمام دن امتحان کے گزر گئے۔ لیکن آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے ظالم کے ساتھ ایسی حالت میں کہ ایک حرف بھی یاد نہ ہو، پورے چھ گھنٹے گزارنے کیسے مشکل ہوں گے۔ میں تو ہر روز آدھ گھنٹے کے بعد ہی کمرے سے نکل آتا لیکن مصیبت یہ آن پڑی کہ والد صاحب روز گیارہ بجے سے آ جاتے اور نیچے صحن میں بیٹھے رہتے۔ اب میں جلدی باہر آ جاتا تو جو رعب میں نے دو سال کے عرصے میں قائم کیا تھا وہ سب ہوا ہو جاتا۔ اس لئے قہر درویش بر جان درویش آخری وقت تک کمرہ امتحان میں بیٹھا رہتا اور جب نیچے اترتا تو والد صاحب سے پرچے کی سختی کی ضرور شکایت کرتا۔ وہ بھی میری تشفی کے لیے ممتحن کو بہت برا بھلا کہتے لیکن ان کو یہ خیال ہو گیا تھا کہ کچھ ہی کیوں نہ ہو میرا بیٹا کامیاب ضرور ہوگا۔ امتحان ختم ہوا اور امید نمبر ایک اور دو کا خون ہو گیا۔ اب ممتحنوں کے پاس کوشش کی سوجھی۔ والد صاحب ایک زبر دست چٹھی سفارش کی لے کر ایک صاحب کے ہاں پہنچے۔ وہ چٹھی دیکھ کر بہت اخلاق سے ملے۔ آنے کی وجہ دریافت کی۔ والد نے عرض کیا کہ خادم زادہ اس سال امتحان میں شریک ہوا ہے۔ اگر آپ کچھ کوشش فرمائیں تو یہ خانہ زاد ہمیشہ ممنون احسان رہے گا۔ وہ بہت ہنسے اور دوسرے لوگوں سے جو سلام کو حاضر ہوئے تھے فرمانے لگے۔ یہ عجیب درخواست ہے۔ ان کا بیٹا تو امتحان دے اور کوشش میں کروں۔ بندہ خدا اپنے لڑکے سے کہو وہ خود کوشش کرے۔ بے چارے بڑے میاں ایسے نادم ہوئے کہ پھر کسی کے پاس نہ گئے۔ کچھ عرصے بعد نتیجہ بھی شائع ہو گیا اور کم ترین جملہ مضامین میں بدرجہ اعلیٰ فیل ہوا۔ خبر نہیں کہ وہ کون سے بھلے مانس ممتحن تھے کہ انہوں نے دو نمبر بھی دیے۔ باقی نے تو صفر ہی پر ٹالا۔ والد صاحب کو بہت رنج ہوا۔ نمبروں کی نقل حاصل کی اور بالآخر یہی رائے قرار پائی کہ کسی بد معاش چپراسی نے پرچے بدل دیے۔ ورنہ ممکن تھا کہ برابر تین گھنٹے لکھا جاتا اور صفر ملتا۔ مجھے بھی تعجب تھا کیوں کہ میں نے پرچے کچھ ایسے برے نہیں کئے تھے۔ فیصلے کےدو پرچوں کے جوابات تو مجھے کچھ یاد ہیں۔ وہ ناظرین کے سامنے پیش کر کے ان سے انصاف کا طالب ہوں۔ بقیہ پرچوں کے متعلق مجھے خود یاد نہیں رہا کہ سوال کیا تھا اور میں نے جواب کیا لکھا۔ لیکن میرے فیصلے سے دوسرے جوابات کا اندازہ ہو جائے گا۔ فیصلہ دیوانی میں یہ مقدمہ دیا گیا تھا کہ ایک مکان گروی ہے۔ مرتہن کہتا ہے کہ مکان رہن بالوفا تھا، مدت ختم ہو گئی اس لئے مکان اب میرا ہو گیا۔ راہن کہتا ہے کہ مرتہن کا قبضہ غاصبانہ ہے۔ دونوں طرف سے شہادت پیش ہوئی ہے۔ مرتہن کے گواہوں کے بیانات سے میرے رائے میں رہن بالوفا ثابت تھا اور راہن کی شہادت سے قبضہ غاصبانہ۔ میں نے اس کا تصفیہ یہ کیا کہ مکان منہدم کر کے زمین اور عملہ آدھا آدھا دونوں میں تقسیم کر دیا جائے اور چونکہ یہ تمام خرابی گواہوں کے پیچیدہ بیانات سے پڑی ہے اس لئے مکان کے منہدم کرنے اور مقدمے کا خرچہ ان سے دلایا جائے۔ میں اب بھی نہایت زور سے کہتا ہوں کہ اس سے زیادہ صاف کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ نہ مرتہن کو شکایت کہ میرا مقدمہ خارج ہوا، اور نہ راہن کو شکایت کہ اس کا مکان مفت میں دوسروں کو دے دیا گیا۔ اب اس فیصلے پر بھی اگر ممتحن صاحب نمبر نہ دیں تو وہ جانیں اور ان کا دین ایمان جانے۔ فوج داری کے مقدمے کی یہ صورت تھی کہ ایک جوان عورت کے خاوند کو ملزم نے مار ڈالا تھا۔ بے چاری کے دو چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔ شہادت میں جو گواہ پیش ہوئے، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے ملزم کو قتل کرتے ہوئے خود دیکھا ہے۔ ایک بیان کرتا ہے کہ اس کا منہ شمال کی طرف تھا۔ دوسرا کہتا ہے کہ میرا منہ جنوب کی طرف تھا۔ ذرا انصاف کیجئے کہ جب یہ صورت ہے تو اس کا لازمی نتیجہ ہوا کہ ان دونوں کی پیٹھ ملزم اور مقتول کی طرف تھی۔ اول تو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسا بڑا واقعہ ہو رہا ہو اور یہ لوگ پیٹھ پھیرے کھڑے رہیں۔ دوسرے جب یہ پیٹھ پھیرے کھڑے تھے تو کیا ان کی آنکھیں پیٹھ پر تھیں، جو انہوں نے اس واقعے کو دیکھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں جھوٹے ہیں۔ اس لئے میں نے یہ تجویز کی کہ ان دونوں گواہوں کو دو دو سال سزائے قید با مشقت اور سو سو روپیہ جرمانہ کی سزا دے کر ملزم کو بری کر دیا جائے۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ بے چاری مستغیثہ بیوہ ہو گئی۔ اس لئے اس کے متعلق یہ حکم دیاکہ سرکاری طور پر مستغیثہ کا نکاح ملزم سے کر دیا جائے اور جو رقم جرمانہ گواہوں سے وصول ہو وہ اس نکاح میں صرف کی جائے۔ اب رہے بچے تو ان کے متعلق یہ تجویز کی گئی کہ ملزم کو ان کے رکھنے اور پرورش کرنے میں تامل ہوگا۔ اس لئے دونوں یتیم خانے میں بھیج دیے جائیں۔ اب آپ ہی فرمائیے کہ اس سے زیادہ اور کیا انصاف ہو سکتا ہے۔ اس پر بھی اگر ممتحن صاحب مجھ کو فیل کر دیں تو اس کو ظلم نہ کہیں تو اور کیا کہیں گے۔ انصاف آپ ناظرین کے ہاتھ میں ہے۔ میں نے یہ جوابات والد صاحب کو بھی سنائے۔ انہوں نے بہت تعریف کی۔ ممتحنوں کو بہت برا بھلا کہا۔ میری بہت اشک شوئی کی اور فرمایا بیٹا گھبرانے کی بات نہیں۔ اس سال نہیں آئندہ سال سہی۔ آخر کہا ں تک بے ایمانی ہوگی۔ سو دن چور کے ایک دن شاہ کا۔ خیر۔ رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشتجو کچھ ہوا سو ہوا، ایک سال کی فرصت تو مل گئی۔

حاشیہ

(1) یہ دو مضامین ’تصویر کا ایک رخ اور تصویر کا دوسرا رخ‘ کے عنوان سے شائع ہوئے تھے، اول الذکر چونکہ زیادہ دل چسپ ہے اس لئے انتخاب میں صرف اسی کو جگہ دی گئی ہے۔

(مرتب)


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.