ہم اشک غم ہیں اگر تھم رہے رہے نہ رہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم اشک غم ہیں اگر تھم رہے رہے نہ رہے
by نظیر اکبر آبادی

ہم اشک غم ہیں اگر تھم رہے رہے نہ رہے
مژہ پہ آن کے ٹک جم رہے رہے نہ رہے

رہیں وہ شخص جو بزم جہاں کی رونق ہیں
ہماری کیا ہے اگر ہم رہے رہے نہ رہے

مجھے ہے نزع وہ آتا ہے دیکھنے اب آہ
کہ اس کے آنے تلک دم رہے رہے نہ رہے

بقا ہماری جو پوچھو تو جوں چراغ مزار
ہوا کے بیچ کوئی دم رہے رہے نہ رہے

ملو جو ہم سے تو مل لو کہ ہم بہ نوک گیاہ
مثال قطرۂ شبنم رہے رہے نہ رہے

یہی ہے عزم کہ دل بھر کے آج رو لیجے
کہ کل یہ دیدۂ پر نم رہے رہے نہ رہے

تمہارے غم میں غرض ہم تو دے چکے ہیں جی
بلا سے تم کو بھی اب غم رہے رہے نہ رہے

یہی سمجھ لو ہمیں تم کہ اک مسافر ہیں
جو چلتے چلتے کہیں تھم رہے رہے نہ رہے

نظیرؔ آج ہی چل کر بتوں سے مل لیجے
پھر اشتیاق کا عالم رہے رہے نہ رہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse