ہم آہوان شب کا بھرم کھولتے رہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم آہوان شب کا بھرم کھولتے رہے
by سراج الدین ظفر

ہم آہوان شب کا بھرم کھولتے رہے
میزان دلبری پہ انہیں تولتے رہے

عکس جمال یار بھی کیا تھا کہ دیر تک
آئینے قمریوں کی طرح بولتے رہے

کیا کیا تھا حل مسئلۂ زندگی میں لطف
جیسے کسی کا بند قبا کھولتے رہے

پوچھو نہ کچھ کہ ہم سے غزالان بزم شب
کس شہر دلبری کی زباں بولتے رہے

کل شب تھا ذکر حور بھی ذکر بتاں کے ساتھ
زہد و صفا ادھر سے ادھر ڈولتے رہے

اپنا بھی وزن کر نہ سکے لوگ اور ہم
روح ورائے روح کو بھی تولتے رہے

سرمایۂ ادب تھی ہماری غزل ظفرؔ
اشعار نغز تھے کہ گہر رولتے رہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse