ہم آج کھائیں گے اک تیر امتحاں کے لیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم آج کھائیں گے اک تیر امتحاں کے لیے
by آرزو لکھنوی

ہم آج کھائیں گے اک تیر امتحاں کے لیے
کہ وقف کرنا ہے دل ناز جاں ستاں کے لیے

جلا کے دل کو لپک سے ڈرو نہ شعلے کی
زباں دراز ہے لیکن نہیں فغاں کے لیے

اسی چمن میں کہ وسعت ہے جس کی نامحدود
نہیں پناہ کی جا ایک آشیاں کے لیے

کیا تھا ضبط نے دعویٰ رازدارئ عشق
اٹھا ہے درد کلیجے میں امتحاں کے لیے

کسی کو ڈھونڈے نہ ملتا نظر کی چوٹ کا نیل
نہ ہوتا دل میں سویدا اگر نشاں کے لیے

سوائے دل کے جو سرمایۂ دو عالم ہے
نہ کچھ یہاں کے لیے ہے نہ کچھ وہاں کے لیے

نہ عشق جرم ہے کوئی نہ دل کی بات ہے راز
برا ہو شرم کا اک قفل ہے زباں کے لیے

خلاف اپنے رہی وضع ساز و برگ چمن
قفس بنے ہیں جو تنکے تھے آشیاں کے لیے

لرز رہے ہیں فلک آرزوؔ کہ آہ رسا
چلی ہے تیغ بکف فتح ہفت خواں کے لیے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse