ہمیں ناشاد نظر آتے ہیں دل شاد ہیں سب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہمیں ناشاد نظر آتے ہیں دل شاد ہیں سب
by امداد علی بحر

ہمیں ناشاد نظر آتے ہیں دل شاد ہیں سب
ہمیں اس دور میں برباد ہیں آباد ہیں سبب

خاکساروں سے بھلا اتنی کدورت کیا ہے
ایک دامن کے جھٹکنے میں تو برباد ہیں سبب

شکوہ اب کیا ہے تجھے کہتے نہ تھے ہم اے دل
جن کے تلوار سے ابرو ہیں وہ جلاد ہیں سب

عقدے کھل جائیں گے اغیار کے رفتہ رفتہ
ہمیں زلفوں کے گرفتار ہیں آزاد ہیں سب

ان حسینوں میں برا کس کو کہوں کس کو بھلا
مجھے دیوانہ بنانے کو جو تیار ہیں سب

آستیں دیدۂ گریاں سے جدا ہو کیوں کر
نہیں بھولے کسی چتون کے مزے یاد ہیں سب

کس کے کاکل نہیں شانوں پہ کھلے رہتے ہے
دام بر دوش مرے واسطے صیاد ہیں سبب

کوئی سنتا نہیں فریاد کسی کے بلبل
کہنے کو جتنے ہیں گل گوش بے فریاد ہیں سب

دشت گردی ہی دوا مجھ کو اگر سودا ہے
خار جنگل کے نہیں نشتر فصاد ہیں سب

شمع روتی ہے تو اس بزم میں سر کٹتا ہے
دادرس کوئی نہیں بر سر بیداد ہیں سب

نہ تو رفتار برے اور نہ گفتار برے
جتنی اس شب میں ادائیں ہیں خدا داد ہیں سب

صدقے رخ پر ہوں کہ قربان قد زیبا پر
غیرت گل میں یہ بت غیرت شمشاد ہیں سب

نسبتاً فرق نہیں ایک ہیں ابنائے جہاں
ایک ہے ان کی اور اک باپ کی اولاد ہیں سب

اس کی دیوار سے سر پھوڑ رہے ہیں عاشق
رشک شیریں ہے وہ بت غیرت فرہاد ہیں سب

دل لگی کس سے کروں بحرؔ کہ جی چھوٹ گیا
مہر پیشہ نہیں کوئی ستم ایجاد ہیں سب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse