ہمارے سامنے کچھ ذکر غیروں کا اگر ہوگا
Appearance
ہمارے سامنے کچھ ذکر غیروں کا اگر ہوگا
بشر ہیں ہم بھی صاحب دیکھیے ناحق کا شر ہوگا
نہ مڑ کر تو نے دیکھا اور نہ میں تڑپا نہ خنجر
نہ دل ہووے گا تیرا سا نہ میرا سا جگر ہوگا
میں کچھ مجنوں نہیں ہوں جو کہ صحرا کو چلا جاؤں
تمہارے در سے سر پھوڑوں گا سودا بھی اگر ہوگا
چمن میں لائی ہوگی تو صبا مشاطگی کر کے
جو گل سے آگے لپٹا ہے کسی بلبل کا پر ہوگا
تری کا بھی وہی مالک ہے جو مالک ہے خشکی کا
مددگار اپنا ہر مشکل میں شاہ بحر و بر ہوگا
تصور زلف کا گر چھوڑ دوں مژگاں کا کھٹکا ہے
جو سر کے درد سے فرصت ملی درد جگر ہوگا
طبیبو تم عبث آئے میں کشتہ ہوں فرنگن کا
مری تدبیر کرنے کو مقرر ڈاکٹر ہوگا
کسی کو کوستے کیوں ہو دعا اپنے لیے مانگو
تمہارا فائدہ کیا ہے جو دشمن کا ضرر ہوگا
مزا آئے گا دیوانوں کی باتوں میں پری زادو
جو آغاؔ کا کسی دن دشت مجنوں میں گزر ہوگا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |