ہمارے زخم کی کیا فکر چارہ جو کرتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہمارے زخم کی کیا فکر چارہ جو کرتے
by صفدر مرزا پوری

ہمارے زخم کی کیا فکر چارہ جو کرتے
تمہیں نے چاک کیا ہے تمہیں رفو کرتے

چمن میں آپ سے وہ کھل کے گفتگو کرتے
یہ منہ گلوں کا کہ دعوائے رنگ و بو کرتے

ملا کے آنکھ وہ ہم سے جو گفتگو کرتے
تو ہم بھی کھل کے ذرا شرح آرزو کرتے

ہمارے آئنۂ دل سے کوئی بحث نہ تھی
تم اپنے مد مقابل سے گفتگو کرتے

یہ بات ایسی تھی ہم منہ بھی چومتے جاتے
وہ پاس بیٹھ کے یوں شکوۂ عدو کرتے

خیال غیر سے دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا
ہمارے سامنے دامن اگر رفو کرتے

یہ لفظ وہ ہے معمہ کبھی نہ حل ہوتا
تمام عمر اگر شرح آرزو کرتے

تلاش یار میں مجھ سے بھی دو قدم آگے
نکل گئے ہیں مرے اشک جستجو کرتے

قیامت آئے نہ کیوں قبر پر سبو بر دوش
ازل کے مست اٹھے ہیں سبو سبو کرتے

گرے ہوئے تھے ہماری ہی آنکھ سے صفدرؔ
ان آنسوؤں کی وہ کیا خاک آبرو کرتے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse