ہمارے دل میں کوئی آرزو نہیں باقی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہمارے دل میں کوئی آرزو نہیں باقی
by ریاض خیرآبادی

ہمارے دل میں کوئی آرزو نہیں باقی
ہمارے پھول میں اب رنگ و بو نہیں باقی

بہت کہی دل ناداں عدو نہیں باقی
مرا عدو مرے پہلو میں تو نہیں باقی

تمہارے تیر کی اب آرزو نہیں باقی
ہوا ہے پیپ کلیجہ لہو نہیں باقی

یہ مے کدہ ہے کہ مسجد یہ آب ہے کہ شراب
کوئی بھی ظرف برائے وضو نہیں باقی

دھرا ہے کیا مرے گھر میں کہ محتسب لے گا
پر از شراب وہ جام و سبو نہیں باقی

وہ رہ کے غیر کی صحبت میں ہو گئے کچھ اور
وہ بات پچھلی سی اگلی سی خو نہیں باقی

تھکا پڑا ہوں تو واماندگی یہ کہتی ہے
انہیں کسی کی بھی اب جستجو نہیں باقی

جو مے کی بوند نہ نکلی تو پڑ گیا پانی
بحال خویش سبو اب سبو نہیں باقی

ہماری آپ کی بات اٹھ رہی ہے محشر پر
ہماری آپ کی کچھ گفتگو نہیں باقی

جو نکلے خار تو دامن سے سوئیاں الجھیں
جگہ ذرا سی کہیں بے رفو نہیں باقی

بڑھی ہے بات قیامت میں جھوٹے وعدے پر
وہ منفعل ہے تو کچھ گفتگو نہیں باقی

یہ محتسب ہے عبث گھر کو سونگھتا پھرتا
کہ بوند بھر بھی مے مشک بو نہیں باقی

ہوا ہے آئنے کے ساتھ عکس کو سکتا
کسی میں جان ترے روبرو نہیں باقی

بہیں شراب کے دریا تو ہم کو لطف نہیں
کہ سبزہ کچھ بھی لب آب جو نہیں باقی

بڑھی ہے پاک نہادی یہ بادہ نوشوں کی
کہ اب نماز میں قید وضو نہیں باقی

ہماری آنکھ میں تاریک بزم عالم ہے
جو زیب بزم تھے وہ شمع رو نہیں باقی

ریاضؔ موت کو کیوں موت آئی جاتی ہے
ہمیں تو موت کی بھی آرزو نہیں باقی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse