ہماری کیف سزاوار احتساب نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہماری کیف سزاوار احتساب نہیں
by بخش ناسخ

ہماری کیف سزاوار احتساب نہیں
خیال چشم ہے کچھ ساغر شراب نہیں

وہ بے نقاب ہوا ہے تو یہ تماشا ہے
دو چار ہونے کی آنکھوں میں اپنی تاب نہیں

یہ مجھ کو اس کے تغافل سے ہے یقین کہ ہائے
جواب نامے سو اے نامے کا جواب نہیں

سما رہا ہے یہاں تک پری رخوں کا جمال
ہماری آنکھوں میں خالی مقام خواب نہیں

بتوں کے پردے میں ہم دیکھتے ہیں نور خدا
خدا کے دیکھنے کی اے کلیم تاب نہیں

وفور اشک سے کیوں ہے گلے تلک پانی
ہمارا کاسۂ سر کاسۂ حباب نہیں

میں بزم شاہد و ساقی میں کیوں نہ وجد کروں
برائے زہد و ورع عالم شباب نہیں

کیا ہے داغ نے کیوں اس کو منزل خورشید
ہمارا دل ہے یہ کچھ برج آفتاب نہیں

ہوا ہے مانع دیدار یار پردۂ چشم
کھلی جو آنکھ تو کچھ درمیاں حجاب نہیں

یہ ضبط گریہ میں عالم ہے بے قراری کا
کہ برق کوندتی ہے بارش سحاب نہیں

بشر کے جسم میں ہے جان مایۂ غفلت
سو اے دیدۂ تصویر کس کو خواب نہیں

دلا ہے موسم پیری محل جام شراب
بغیر صبح کوئی وقت آفتاب نہیں

میں غش سے اس کے چھڑکتے ہی ہوشیار ہوا
کسی صنم کا پسینہ ہے یہ گلاب نہیں

بہت فریب سے ہم وحشیوں کو وحشت ہے
ہمارے دشت میں ناسخؔ کہیں سراب نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse