ہماری کیف سزاوار احتساب نہیں
ہماری کیف سزاوار احتساب نہیں
خیال چشم ہے کچھ ساغر شراب نہیں
وہ بے نقاب ہوا ہے تو یہ تماشا ہے
دو چار ہونے کی آنکھوں میں اپنی تاب نہیں
یہ مجھ کو اس کے تغافل سے ہے یقین کہ ہائے
جواب نامے سو اے نامے کا جواب نہیں
سما رہا ہے یہاں تک پری رخوں کا جمال
ہماری آنکھوں میں خالی مقام خواب نہیں
بتوں کے پردے میں ہم دیکھتے ہیں نور خدا
خدا کے دیکھنے کی اے کلیم تاب نہیں
وفور اشک سے کیوں ہے گلے تلک پانی
ہمارا کاسۂ سر کاسۂ حباب نہیں
میں بزم شاہد و ساقی میں کیوں نہ وجد کروں
برائے زہد و ورع عالم شباب نہیں
کیا ہے داغ نے کیوں اس کو منزل خورشید
ہمارا دل ہے یہ کچھ برج آفتاب نہیں
ہوا ہے مانع دیدار یار پردۂ چشم
کھلی جو آنکھ تو کچھ درمیاں حجاب نہیں
یہ ضبط گریہ میں عالم ہے بے قراری کا
کہ برق کوندتی ہے بارش سحاب نہیں
بشر کے جسم میں ہے جان مایۂ غفلت
سو اے دیدۂ تصویر کس کو خواب نہیں
دلا ہے موسم پیری محل جام شراب
بغیر صبح کوئی وقت آفتاب نہیں
میں غش سے اس کے چھڑکتے ہی ہوشیار ہوا
کسی صنم کا پسینہ ہے یہ گلاب نہیں
بہت فریب سے ہم وحشیوں کو وحشت ہے
ہمارے دشت میں ناسخؔ کہیں سراب نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |