ہماری روح جو تیری گلی میں آئی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہماری روح جو تیری گلی میں آئی ہے
by منیرؔ شکوہ آبادی

ہماری روح جو تیری گلی میں آئی ہے
اجل کے صدقے میں یہ راہ دیکھ پائی ہے

وہاں پہنچ نہیں سکتیں تمہاری زلفیں بھی
ہمارے دست طلب کی جہاں رسائی ہے

لہو مرا تری تلوار سے ملا ایسا
کہ ناگوار پس ذبح بھی جدائی ہے

نہ پوچھئے کہ تو جلتا ہے کیوں رقیبوں سے
وہی یہ آگ ہے جو آپ نے لگائی ہے

نثار حضرت آغا علی حسنؔ خاں ہوں
زیادہ حد سے مری آبرو بڑھائی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse