ہماری اس وفا پر بھی دغا کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہماری اس وفا پر بھی دغا کی
by خواجہ محمد وزیر

ہماری اس وفا پر بھی دغا کی
قسم کھائی تھی او کافر خدا کی

وہ مشت استخواں ہوں اے سگ یار
اگر کھائے سعادت ہے ہما کی

لب شیریں کا جو بوسہ لیا تھا
مری اس کی شکر رنجی رہا کی

وفا سے میں نے بھی اب ہاتھ اٹھایا
قسم ہے مجھ کو اپنے بے وفا کی

ہوئی گر صلح بھی تو بھی رہے جنگ
ملا جب دل تو آنکھ اس سے لڑا کی

فقیروں کے قدم لیتے ہیں سلطاں
یہ ہے تاثیر نقش بوریا کی

تصور بندھ گیا جب اس مژہ کا
تو پہروں دل پہ برچھی سی لگا کی

خدا یوں جس کو چاہے دے سعادت
وگرنہ سگ میں خصلت ہے ہما کی

نہیں اٹھتا ہے سر سجدے سے میرا
مگر ہے سجدہ گاہ اس خاک پا کی

کہوں جب میں کہ بے تیرے ہوں مرتا
تو کہتا ہے وہ بت مرضی خدا کی

نہ آیا منتوں سے یار جس دم
تو پھر کیا کیا اجل کے التجا کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse