ہماری آنکھوں کی پتلیوں میں ترا مبارک مقام ہے گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہماری آنکھوں کی پتلیوں میں ترا مبارک مقام ہے گا
by سراج اورنگ آبادی

ہماری آنکھوں کی پتلیوں میں ترا مبارک مقام ہے گا
پلک کے پٹ ہم نے کھول دیکھے تو عین ماہ تمام ہے گا

ارے شراب خرد کے کیفی نہ کر توں دعوائے پختہ مغزی
مے محبت کا جام پی توں کہ اب تلک ظرف خام ہے گا

خیال ابروئے قبلہ رویاں ہوا ہے محراب سجدۂ دل
نماز شرط نیاز کی پڑھ صف جنوں کا امام ہے گا

اگرچہ ہر سرو راست قامت چمن میں مغرور سرکشی ہے
مقابل اس قد خوش ادا کے مری نظر میں غلام ہے گا

سراجؔ اس شعلہ رو سیں ہرگز گلہ روا نیں ہے عاشقوں کوں
تمام جلتی ہے شمع ہر شب عبث پتنگوں کا نام ہے گا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse