ہستی ہے عدم مری نظر میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہستی ہے عدم مری نظر میں
by جلیل مانکپوری

ہستی ہے عدم مری نظر میں
سوجھی ہے یہ ایک عمر بھر میں

او آنکھ چرا کے جانے والے
ہم بھی تھے کبھی تری نظر میں

پھیلاتی ہے پاؤں حسرت دید
ٹھنڈک جو ملی ہے چشم تر میں

کوئی نہ حجاب کام آیا
دیکھا تو وہ تھے مری نظر میں

کم ظرف تھے سارے غنچہ و گل
کیا پھولے ہیں ایک مشت زر میں

اتنا بھی نہ ہو کوئی حیا دار
دیکھا تو سما گئے نظر میں

تارے یہ نہیں ہیں آخر شب
کچھ پھول ہیں دامن سحر میں

ہے عمر رواں کا شمع میں رنگ
گھر بیٹھے گزرتی ہے سفر میں

دنیا ہے جلیلؔ ہاتھ اٹھائے
بیٹھے ہیں کسی کی رہ گزر میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse