ہستی کو تری بس ہے میاں گل کی اشارت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہستی کو تری بس ہے میاں گل کی اشارت
by مرزا محمد رفیع سودا

ہستی کو تری بس ہے میاں گل کی اشارت
کافی ہے مرے نالے کو بلبل کی اشارت

فتویٰ طلب اے یار نہ قاضی سے کروں میں
توبہ شکنی کو ہے مری مل کی اشارت

مل بیٹھ میری آنکھوں میں ہے ساعت نیک آج
یہ چشم ترازو ہیں ترے تل کی اشارت

ہے باعث جمعیت دل ایک جہاں کی
اے شوخ پریشانیٔ کاکل کی اشارت

تقویٰ کے نہیں بار سے قد خم ترا اے شیخ
اک خلق میں مشہور ہے اس پل کی اشارت

یاد آئے تری زلف نہ مجھ کو جو چمن میں
دے تاب مرے دل کو نہ سنبل کی اشارت

عشاق کو تجھ چشم کے حاجت نہیں مے کی
بے ہوش کرے سوداؔ کو قلقل کی اشارت

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse