ہستی اپنی حباب کی سی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

ہستی اپنی حباب کی سی ہے

یہ نمائش سراب کی سی ہے


نازکی اُس کے لب کی کیا کہئیے

پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے


بار بار اُس کے در پہ جاتا ہوں

حالت اب اضطراب کی سی ہے


میں جو بولا، کہا کہ یہ آواز

اُسی خانہ خراب کی سی ہے


میر اُن نیم باز آنکھوں میں

ساری مستی شراب کی سی ہے