ہزار پھول لیے موسم بہار آئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہزار پھول لیے موسم بہار آئے
by ثاقب لکھنوی

ہزار پھول لیے موسم بہار آئے
جو دل ہو سوکھ کے کانٹا تو کیا قرار آئے

جواب لے کے پھری شکر نزع کی ہچکی
وہ اب پکارتے ہیں ہم جنہیں پکار آئے

سلجھ سکیں نہ مری مشکلیں مگر دیکھا
الجھ گئے تھے جو گیسو انہیں سنوار آئے

فلک کو دیکھ کے ہنستے یہ گل تو اچھا تھا
جو ابر آئے وہ گلشن پہ اشک بار آئے

بہت سے یاد ہیں محفل میں بیٹھنے والے
کبھی تو بھول کے کوئی سر مزار آئے

ابھی ہے غنچۂ دل کی شگفتگی ممکن
ہزار بار اگر موسم بہار آئے

یہ بے مروتیاں دیکھیے کہ لب نہ ہلے
جو پاس تھے ہم انہیں دور تک پکار آئے

جواب مل تو گیا گو وہ دل شکن ہی سہی
یہی صدا مرے مالک پھر ایک بار آئے

اندھیری رات تھی اچھا کیا جو اے ثاقبؔ
چراغ لے کے سوئے ظلمت مزار آئے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse